فقط یہ کر دو
مرے لیے تم
جو کر سکو تو
فقط یہ کر دو
کہ جو بھی امید ہے وابستہ
وہ توڑ دو تم
سفر شروع جو کیا تھا ہم نے
وہ بیچ رستے میں چھوڑ دو تم
جو تم کو مجھ سے لگاؤ تھا نا
وہ دل سے یکسر نکال کر اور
مجھے بھی غیروں سے جوڑ دو تم
جو ہو سکے تو، فریبی قسموں کے جال میں تم
مجھے کچھ اس طور سے پھنسا دو
کہ میں ذرا پھڑپھڑا نہ پاؤں
مجھے تم اتنے فریب دو کہ
کبھی کسی کے فریب میں پھر، میں آ نہ پاؤں
جو ہو سکے تو، گراؤ ایسا
کہ سر اٹھا کہ میں چل نہ پاؤں
میں تیری ٹھوکر میں خاک چاٹوں
کبھی جو مجھ سے کلام ہو تو
یہ یاد رکھنا
کہ بات کڑوی ہو، زہر لہجہ
کہیں بھی شیریں کلام نہ ہو
عذاب دے دو ادھورے پن کا
حساب نہ دو کسی زخم کا
سراب دو دلفریب سا پھر
اور تشنگی میں ہی مار دو تم
ختم کرو تم مِری قدر کو
یوں مجھ پہ بس خاک ڈال دو تم
یوں میری روح کو قرار دو تم
جو کر سکو تو فقط یہ کر دو
زہر رگوں میں اتار دو تم
زمیں میں زندہ ہی گاڑ دو تم
مناہل فاروقی
No comments:
Post a Comment