Saturday 23 October 2021

جو ہو سکے تو فقط یہ کر دو

 فقط یہ کر دو


مرے لیے تم

جو کر سکو تو

فقط یہ کر دو

کہ جو بھی امید ہے وابستہ

وہ توڑ دو تم

سفر شروع جو کیا تھا ہم نے

وہ بیچ رستے میں چھوڑ دو تم

جو تم کو مجھ سے لگاؤ تھا نا

وہ دل سے یکسر نکال کر اور

مجھے بھی غیروں سے جوڑ دو تم

جو ہو سکے تو، فریبی قسموں کے جال میں تم

مجھے کچھ اس طور سے پھنسا دو

کہ میں ذرا پھڑپھڑا نہ پاؤں

مجھے تم اتنے فریب دو کہ

کبھی کسی کے فریب میں پھر، میں آ نہ پاؤں

جو ہو سکے تو، گراؤ ایسا

کہ سر اٹھا کہ میں چل نہ پاؤں

میں تیری ٹھوکر میں خاک چاٹوں

کبھی جو مجھ سے کلام ہو تو

یہ یاد رکھنا

کہ بات کڑوی ہو، زہر لہجہ 

کہیں بھی شیریں کلام نہ ہو

عذاب دے دو ادھورے پن کا

حساب نہ دو کسی زخم کا

سراب دو دلفریب سا پھر

اور تشنگی میں ہی مار دو تم

ختم کرو تم مِری قدر کو

یوں مجھ پہ بس خاک ڈال دو تم

یوں میری روح کو قرار دو تم

جو کر سکو تو فقط یہ کر دو

زہر رگوں میں اتار دو تم

زمیں میں زندہ ہی گاڑ دو تم


مناہل فاروقی

No comments:

Post a Comment