میں نقشِ ما و من ہوتا کہ نقشِ ماسوا ہوتا
جو پہلے سے خبر ہوتی کہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا
مِری ہستی کا نقطہ گر نہ نقشِ ماسوا ہوتا
ازل کی ابتدا ہوتا،۔ ابد کی انتہا ہوتا
سمجھ لے راہ الفت میں کچھ ایسی ہی پڑی ورنہ
نہ دل مجھ سے جدا ہوتا نہ میں دل سے جدا ہوتا
بنی جو کچھ بنی ہم پر مگر پھر بھی یہ حسرت ہے
کہ پہلو دل میں ہوتا اور دل میں مدعا ہوتا
یہ عالم تھا کبھی دل کا مِرے جوش تخیل سے
جو نقشہ آنکھ میں پھرتا وہی میرا خدا ہوتا
فضا کے ذرے ذرے میں تموج ہے تلاطم ہے
اثر درد آفریں دل کی صدا میں اور کیا ہوتا
خیال ہستیٔ موہوم آفت ہے، قیامت ہے
کہ ہونے پر برا ٹھہرا نہ ہوتا تو برا ہوتا
نہ اگلی سی خلش ہے اب نہ وہ پچھلی سی کاوش ہے
الوہی قلب میں خار تمنا رہ گیا ہوتا
یہ منظر مجمع محشر کا اور محروم ہے بیخود
خدایا پردۂ جوش تمنا اٹھ گیا ہوتا
بیخود موہانی
No comments:
Post a Comment