Tuesday, 26 October 2021

راز ہونٹوں پہ تھرتھراتے ہیں

 راز ہونٹوں پہ تھرتھراتے ہیں

بات ہاتھوں سے نکلی جاتی ہے

دن کے قصے عجیب ہوتے ہیں

رات کہانیاں سناتی ہے


اک دھواں سا اٹھتا ہے کہیں

شہرِ ویراں سے گزرتا ہے کہیں

ملجگی دھند سی چھا جاتی ہے

زرد آنکھوں میں اتر آتی ہے


اک ملاقات ہے ہونے والی

دل کی دنیا ہے کھونے والی

اس کی ادھ کھلی سی آنکھیں ہیں

جاگنے والی نہ سونے والی


اس کے لہجے میں حرارت اتنی

میری نس نس ہے پگھلنے والی

قرب محبت میں جب بھی حاصل ہو

جان جیسے ہو نکلنے والی


لطفِ آغوش سے ڈرنا کیسا

شدتِ پیار میں سنبھلنا کیسا

عشق گر ہے تو پھر ہے صاحب

بات بے بات مُکرنا کیسا


تاشفین فاروقی

No comments:

Post a Comment