راز ہونٹوں پہ تھرتھراتے ہیں
بات ہاتھوں سے نکلی جاتی ہے
دن کے قصے عجیب ہوتے ہیں
رات کہانیاں سناتی ہے
اک دھواں سا اٹھتا ہے کہیں
شہرِ ویراں سے گزرتا ہے کہیں
ملجگی دھند سی چھا جاتی ہے
زرد آنکھوں میں اتر آتی ہے
اک ملاقات ہے ہونے والی
دل کی دنیا ہے کھونے والی
اس کی ادھ کھلی سی آنکھیں ہیں
جاگنے والی نہ سونے والی
اس کے لہجے میں حرارت اتنی
میری نس نس ہے پگھلنے والی
قرب محبت میں جب بھی حاصل ہو
جان جیسے ہو نکلنے والی
لطفِ آغوش سے ڈرنا کیسا
شدتِ پیار میں سنبھلنا کیسا
عشق گر ہے تو پھر ہے صاحب
بات بے بات مُکرنا کیسا
تاشفین فاروقی
No comments:
Post a Comment