Sunday 24 October 2021

حوا کی بیٹی

 حوا کی بیٹی


سنو ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کیا 

کہ چھ راتوں پہ ایک کھڑکی سے 

تین موسم اترے ہوں 

اور ساتویں دن کی بھاری رات میں 

آسمانی بلائیں 

کائنات کے مکمل ہونے کے دکھ میں 

شب ہجر مناتی ہوں 

چھ دن خدا نے میری مٹی کو گوندھا 

اور ساتویں رات مجھے 

سانس پھونک کر دنیا کے حوالے کر دیا گیا 

دنیا جس میں سات رنگ قوس و قزح کے 

اور آٹھواں رنگ بہار 

بھنوروں کے نتھنوں سے ہو کر 

زہریلا رس بناتے ہیں 

جو محبت کے نام پر 

فرصت کی خالی شیشیوں میں 

بھر بھر کر مفت بانٹا جاتا ہے 

رس بھرے جھوٹوں کا ذائقہ چکھ چکھ کر 

سچ میرے وجود میں متلی کی طرح تیرتا ہے 

جب بھی یوں ہی کھڑکی سے موسم اترتے ہیں 

میرے جسم سے سوندھی مٹی کی خوشبو اٹھتی رہتی ہے 

اور ہر چھٹے دن کی ساتویں رات کا 

طواف مکمل ہونے پر 

ہجر میری آنکھوں کو چوم چوم کر 

سنگ سیاہ بنا دیتا ہے 

بولو ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کیا 

کہ پتھر آنکھوں سے 

کانچ کی کھڑکی کے پار 

اترتے موسموں کی بدلتی رتوں کو دیکھا جا سکے 

تو کیوں نہ پھر آفاقی بلاؤں کی صف میں شریک ہو کر 

کائناتی شب ہجراں کا ابدی ماتم منایا جائے 


کومل راجہ

No comments:

Post a Comment