حوا کی بیٹی
سنو ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کیا
کہ چھ راتوں پہ ایک کھڑکی سے
تین موسم اترے ہوں
اور ساتویں دن کی بھاری رات میں
آسمانی بلائیں
کائنات کے مکمل ہونے کے دکھ میں
شب ہجر مناتی ہوں
چھ دن خدا نے میری مٹی کو گوندھا
اور ساتویں رات مجھے
سانس پھونک کر دنیا کے حوالے کر دیا گیا
دنیا جس میں سات رنگ قوس و قزح کے
اور آٹھواں رنگ بہار
بھنوروں کے نتھنوں سے ہو کر
زہریلا رس بناتے ہیں
جو محبت کے نام پر
فرصت کی خالی شیشیوں میں
بھر بھر کر مفت بانٹا جاتا ہے
رس بھرے جھوٹوں کا ذائقہ چکھ چکھ کر
سچ میرے وجود میں متلی کی طرح تیرتا ہے
جب بھی یوں ہی کھڑکی سے موسم اترتے ہیں
میرے جسم سے سوندھی مٹی کی خوشبو اٹھتی رہتی ہے
اور ہر چھٹے دن کی ساتویں رات کا
طواف مکمل ہونے پر
ہجر میری آنکھوں کو چوم چوم کر
سنگ سیاہ بنا دیتا ہے
بولو ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کیا
کہ پتھر آنکھوں سے
کانچ کی کھڑکی کے پار
اترتے موسموں کی بدلتی رتوں کو دیکھا جا سکے
تو کیوں نہ پھر آفاقی بلاؤں کی صف میں شریک ہو کر
کائناتی شب ہجراں کا ابدی ماتم منایا جائے
کومل راجہ
No comments:
Post a Comment