Monday, 25 October 2021

ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے

 ہر اک کتاب نجومی غلط بتاتا ہے

مِری حیات کا جب زائچہ بناتا ہے

کسی حویلی میں جب وحشتیں پنپتی ہیں

بدن پہ سبزۂ نو رستہ لہلہاتا ہے

ہماری نیند میں گرداب بننے لگتے ہیں

اداس کمرہ عجب قہقہے لگاتا ہے

مہیب تیرہ گُپھا میں بدن ہے سہما ہوا

بس ایک جگنو ہے جو حوصلہ بڑھاتا ہے

نہ جانے کتنے نئے خوف ڈسنے لگتے ہیں

وہ مجھ سے ملنے کا سلسلہ بڑھاتا ہے

اسے حریف کہو وصل رت کے نغموں کا

درخت سے جو پرندے اڑائے جاتا ہے


اسلم حنیف

No comments:

Post a Comment