اک اک کر کے ہو گئے رخصت اب کوئی ارمان نہیں
دل میں گہرا سناٹا ہے،۔ اب کوئی مہمان نہیں
تم نے بھی سن رکھا ہو گا، ہم بھی سنتے آئے ہیں
جس کے دل میں درد نہ ہو وہ پتھر ہے انسان نہیں
درد کڑا ہو تو بھی اکثر پتھر بن جاتے ہیں لوگ
مرنے کی امید نہیں ہے، جینے کا سامان نہیں
کچھ مت بولو چپ ہو جاؤ باتوں میں کیا رکھا ہے
کیوں کرتے ہو ایسی باتیں جن باتوں میں جان نہیں
اوروں جیسی باتیں مجھ کو بھی کرنی پڑتی ہیں روز
یہ تو میری مجبوری ہے، یہ میری پہچان نہیں
میری باتیں سیدھی سچی، ان میں کوئی پیچ نہیں
ان کو میر کی غزلیں جانو، غالب کا دیوان نہیں
دل کو بہلانے کی خاطر ہم بھی کیا کیا کرتے ہیں
خوب سمجھتا ہے وہ بھی سب ایسا بھی نادان نہیں
رات گئے اکثر یوں ہی کیوں پھوٹ پھوٹ کر روتے ہو
خاک تلے سونے والوں سے ملنے کا امکان نہیں
وہ تھا میرے دُکھ کا ساتھی، اور تمہیں کیا بتلائیں
اس کا میرا جو رشتہ تھا اس رشتے کا نام نہیں
وہ ہوتا تو پھر بھی شاید درد پہ کچھ قابو رہتا
تنہائی سے تنہا لڑنا، کچھ ایسا آسان نہیں
جعفر عباس
No comments:
Post a Comment