Tuesday, 26 October 2021

الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی

 الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی

دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی

جانے وہ کیا کسی کی جی کی

جس کو الفت نہ ہو کسی کی

خواہش نہ بر آئی اپنی جی کی

ہم نے کس کس کی دوستی کی

اچھی نہیں شرح عاشقی کی

پوچھو نہ اجی کسی کی جی کی

یہ روئے کہ نامہ بہہ کے پہنچا

اشکوں نے ہمارے قاصدی کی

سرخی مگر اس کے لب کی دیکھی

رنگت ہے سفید آرسی کی

عاشق تھے وہ ہم کہ بعد اپنے

مٹی ہی خراب عاشقی کی

اے ابرِ شبِ فراق! سچ کہہ

روتے کٹتی ہے شب کسی کی

دل زلفِ رسا تلک تو پہنچا

اتنی بختوں نے رہبری کی

بجلی چمکی تو ابر رویا

یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

ہم کسی کی گلی کی راہ بھولے

جو خضر نے بھی نہ رہبری کی

دل کو مِرے خاک میں ملایا

دلبر نے خوب دلبری کی

سوزش مِرے دل کی دیکھ اے ماہ

کر سیر اس برجِ آتشی کی

وہ طفل نصیری آئے شاید

قسمیں دوں مرتضیٰ علی کی

گردن زدنی تھی شمع سرکش

کیوں اس کی گلی سے ہمسری کی

بس رکھ دیا خط میں برگِ سوسن

جب لکھ نہ سکے صف مسی کی

ٹھکرا کے چلی جبیں کو میرے

قسمت کے لکھے نے یاوری کی

یہ رشک ہے منہ جو یار دیکھے

صورت دیکھوں نہ آرسی کی

بھولا تھا میں راہ کوئے قاتل

تُو نے اے موت رہبری کی

اس کے گردن تلک نہ پہنچا

اے دست دراز کوتہی کی

دل کو پالا بغل میں تُو نے

گویا دشمن سے دوستی کی


فقیر محمد گویا

No comments:

Post a Comment