Tuesday, 26 October 2021

آپ ہی اپنا میں دشمن ہو گیا

 آپ ہی اپنا میں دُشمن ہو گیا

تپ گیا سونا تو کُندن ہو گیا

اور نِکھرا صبحِ کاذب کا سُہاگ

ختم جب تاروں کا ایندھن ہو گیا

کس سے پوچھوں کھو گئی سیتا کہاں

بَن کا ہر سایہ ہی راون ہو گیا

جب در و دیوار چمکائے گئے

گھر کا گھر ہی ان کا درپن ہو گیا

بد نصیبی قافلے کی دیکھیۓ

جو بنا رہبر وہ رہزن ہو گیا

وہ نہیں تو ان کا ہر لمحہ خیال

ہر نفس پر ایک اُلجھن ہو گیا

مانگتے پھرتے ہیں گُل خاروں سے چھاؤں

کیا سے کیا دستورِ گُلشن ہو گیا

پھر نہ بچھڑے اس طرح سے مل گئے

جیسے دو سایوں کا بندھن ہو گیا

بے خیالی میں یوں ہی پھیلا تھا ہاتھ

جب چُھوا تم نے تو دامن ہو گیا

جانے کیوں گُم ہو گئی برکھا کی دھوپ

رُخ مِرا جب سُوئے چلمن ہو گیا


وجد چغتائی

No comments:

Post a Comment