دی یاد نے دستک جو کبھی خواب میں آ کر
تصویر تِری چوم لی آنکھوں سے لگا کر
رہتی ہیں تعاقب میں ہوس کار نگاہیں
اے حسن! سرِ بزم تُو پردے میں رہا کر
تُو مجھ کو کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے جہاں میں
رہتا ہوں تِرے دل میں کبھی دیکھ لیا کر
ارمان مچلتے ہیں، تڑپتا ہوں اکیلا
ساون کی کوئی شام مِرے نام کیا کر
پڑھتا ہی نہیں کوئی مِرے غم کی کہانی
پھرتا ہوں میں آنکھوں میں کئی خواب سجا کر
جذبوں کے شہنشاہ سے اے حسن کی ملکہ
تنہائی کے لمحوں میں کبھی مل بھی لیا کر
زلفیں شبِ ظلمت کی سمیٹی نہیں جاتیں
اے چاند! مِرے گھر کو بھی چمکا کبھی آ کر
بیٹھا ہوں سرِ راہ، یہ اُس شوخ سے کہنا
اِتنا سا مِرا کام ہی اے بادِ صبا! کر
ساقی جو نظر آئے سرِ راہ بھی مظہر
تُو جام محبت کے نگاہوں سے پیا کر
شعیب مظہر
No comments:
Post a Comment