Monday, 25 October 2021

سخن کو سادہ مری جان کیوں نہیں کرتا

 سخن کو سادہ مِری جان! کیوں نہیں کرتا

تُو کوئی بات بھی آسان کیوں نہیں کرتا

یہ میری آنکھ کی بینائی رہ چکا ہے اگر

یہ چہرہ اب مجھے حیران کیوں نہیں کرتا

میں زندہ ہوں مجھے چھُونے سے ڈر رہا ہے کیوں

بکھر رہا ہوں تو یکجان کیوں نہیں کرتا

یہ تیرا ہاتھ مِری پشت پر نہیں رہا ہے

تو اپنی جیت کا اعلان کیوں نہیں کرتا

یہ لڑکی اپنی ضرورت نہیں بتاتی مجھے

یہ پھول جھیل کی پہچان کیوں نہیں کرتا

یہ بات پیڑ بتاتے نہیں پہ جانتے ہیں

پرندہ اڑنے کا سامان کیوں نہیں کرتا

اگر یہ خواب ہے تعبیر کیوں نہیں ملتی

اگر یہ درد ہے ہلکان کیوں نہیں کرتا


فرازاحمد علوی

No comments:

Post a Comment