پسِ زندانِ انا قیدِ جفا کاٹتی ہے
زندگی روشنی ہے اور خلا کاٹتی ہے
دونوں ہاتھوں سے لگاتی ہے وہ قوسین کی حد
طیش میں آتے ہی پھر اپنا لکھا کاٹتی ہے
تُو نے اس دشت کا زنداں ابھی دیکھا ہی نہیں
دن کو جلتا ہے بدن، شب کو ہوا کاٹتی ہے
کیسے ناکردہ گناہوں میں اٹھائی گئی ہے
کیسے کرموں کا کیا خلقِ خدا کاٹتی ہے
زخمِ ناسور سے اٹھتی ہے جونہی باسِ ہوس
تب طوائف اسے ڈھکنے کو ردا کاٹتی ہے
ہم نے تو دیکھا فقط نجمی ہے خستہ دیوار
کبھی سوچا ہی نہیں کون ہے، کیا کاٹتی ہے
نجم الحسن نجمی
No comments:
Post a Comment