Saturday, 23 October 2021

وہ مری دنیا کا مالک تھا مگر میرا نہ تھا

 وہ مِری دنیا کا مالک تھا، مگر میرا نہ تھا

میں نے اس انداز پر پہلے کبھی سوچا نہ تھا

ایک مُدت تک رہا خوش فہمیوں میں مُبتلا

آئینے کے روبرو جب تک مِرا چہرا نہ تھا

تہمتوں کو ایک ایسے اجنبی کی تھی تلاش

جو کبھی گھر سے نکل کر راہ میں ٹھہرا نہ تھا

ہو چکی تھی شہرتیں رسوائیوں سے ہمکنار

بھول جاتا میں جسے وہ سانحہ ایسا نہ تھا

میری نظروں میں ہے خاکہ وہ بھی حسن دوست کا

جس کو لوگوں نے ابھی تک ذہن میں سوچا نہ تھا

میں اٹھوں تو رنگ لائیں تذکروں کے سلسلے

لوگ اتنا تو کہیں کہ آدمی اچھا نہ تھا

اک نیا احساس دیتے ہیں وہ اہل سنگ کو

آبرو کے ساتھ رہنا شہر میں اچھا نہ تھا

کیا اثر انداز ہوتا اس پہ افسانہ نظر

لفظ بھی مانگے ہوئے مفہوم بھی اپنا نہ تھا


جمیل نظر

No comments:

Post a Comment