Saturday 23 October 2021

اب کے یادوں سے کوئی رات نہ خالی جائے

 اب کے یادوں سے کوئی رات نہ خالی جائے

کیوں نہ صورت کوئی آنکھوں میں بسا لی جائے

کوئی پوچھے جو کبھی حال ہمارا آ کر

اپنی حالت پھر کہاں ہم سے سنبھالی جائے

آنکھ تھکتی ہی نہیں ہے بیدارئ شب سے

نیند کے بعد بھی آنکھوں سے نہ لالی جائے

یوں تو آتے ہی نہیں اشک آنکھوں میں مِری

کیوں نہ صورت ذرا رونی سی بنا لی جائے

حسنِ یوسف کی مثل ہم ہیں اب زمانے میں

مجھ سا آئے تو میری خام خیالی جائے

اِس سے پہلے کہ مقیمانِ دِل کا شور بڑھے

یہی بہتر ہے کہ دیواراٹھا لی جائے

دل سے نفرت و عداوت کو مٹانے کے لیے

کوئی الفت کی بھی بنیاد تو ڈالی جائے


مناہل فاروقی

No comments:

Post a Comment