میں کیوں اسے صدائیں دوں مجھ سے کہیں ملے
اک آسمانِ عشق سے کیسے زمیں ملے؟
میں پیڑ ہوں مجھے کہاں ہجرت کا حکم ہے
موسم کا فرض ہے مجھے آ کر یہیں ملے
حیراں ہوں میں کہ کیسی یہ جادوئی صفت ہے
دل میں رکھے جو لوگ، پسِ آستیں ملے
اپنے غرورِ حسن میں توڑے تِرا غرور
تجھ کو بھی کوئی دوستا تجھ سا حسیں ملے
صد شکر چھیڑتی نہیں وحشت کوئی بھی چیز
رکھے تھے میں نے جس جگہ آنسو، وہیں ملے
خوشیاں تو اک طرف رہیں اے کاتبِ حیات
مجھ کو مِرے مزاج کے دکھ بھی نہیں ملے
کومل جوئیہ
No comments:
Post a Comment