دل میں گھر کرتی ہوئی نیند اڑا دیتی ہے
خاموشی آمد طوفاں کا پتہ دیتی ہے
کتنے برسوں کی ریاضت سے قرار آتا ہے
پھر تِری ایک جھلک آگ لگا دیتی ہے
کون سی دھن میں مگن ہوں نہیں معلوم مگر
آج کل اپنی ہی آواز مزا دیتی ہے
جانے والے تجھے الله سلامت رکھے
کس کو معلوم ہے دنیا کسے کیا دیتی ہے
سانحہ یہ ہے کہ ہر رات تیری یاد کے ساتھ
ایک تخلیق کی رَو آ کے جلا دیتی ہے
پاؤں اٹھتے ہیں سفر کو تو یہ گھر کھینچتا ہے
ماں دعا دیتی ہے اور خاک صدا دیتی ہے
دے گئی زنده دلی ایک محبت طالب
دیکھنا ہے یہ محبت مجھے کیا دیتی ہے
طالب حسین طالب
No comments:
Post a Comment