شہزادی
یہ کوئی پہلا ہجر نہیں جو جھیلنا ہو گا
تم سے پہلے بھی اِک لڑکی
خوابوں کی مسماری کر کے
دُکھ سینے میں جاری کر کے
ہجر بدن پر طاری کر کے
دُور کسی کے آنگن کی شہزادی ہو گئی
اس کے دُکھ کی نیلی گرہیں پوری طرح سے کُھل نہیں پائیں
اور تم آئیں
تم آئی تو سوچا تھا تم خوابوں کو شاداب کرو گی
پیاسا دل سیراب کرو گی
لیکن تم بھی مجھ پیاسے کو پیاسا رکھنے کی ہی ضد پر اڑی ہوئی ہو
ٹھیک ہے گر قسمت میں جلتے
صحراوں کی خاک لکھی ہے
خوابوں کی تقدیر میں پھر اِک مسماری ہے
سب سہہ لوں گا
شہزادی تم خوش خوش رہنا
وقت مجھے جیسا رکھے گا
میں رہ لوں گا
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment