نذرِ میرا جی (میرا جی کی زمین میں)
سارا موسم بہار ہے اپنا
پھر بھی دل بے قرار ہے اپنا
اپنے خوں میں ہے اپنی میخواری
اپنے دل میں خمار ہے اپنا
جلتے رہتے ہیں اپنی وادی میں
جگنوؤں میں شمار ہے اپنا
گردنیں کاٹتے نہیں ہم لوگ
صرف لفظوں کا وار ہے اپنا
اپنا ہی بوجھ ڈھوتے رہتے ہیں
اپنے اوپر سوار ہے اپنا
دشمنوں سے نہ مات کھائیں گے
تجربوں کا حصار ہے اپنا
ہم بلندی سے گرتے رہتے ہیں
فکر کا آبشار ہے اپنا
خود سے خود ہے نذیر شرمندہ
خود پہ باقی اُدھار ہے اپنا
نذیر فتحپوری
نذیر احمد خاں
No comments:
Post a Comment