وہ چھپکے چھپکے تکتی ہے
وہ تکنے پہ نہ تھکتی ہے
جھلکتی ہے دمکتی ہے
ہر وقت تو وہ چمکتی ہے
مستی میں وہ بستی ہے
وہ ساری مستی مستی ہے
اچھلتی ہے، مچلتی ہے
وہ کیا ہی خوب چال چلتی ہے
ہائے کچھ تو دل میں رکھتی ہے
وہ ہستی ایسی لگتی ہے
اس کی ہنسی میرے دل کو
جھٹکتی ہے، لپکتی ہے
وہ جان جو بوجھ کر الجھتی ہے
سنبھلتی ہے، سلجھتی ہے
جب بنتی ہے، سنورتی ہے
تو دل پہ راج وہ کرتی ہے
مسکان سے تو وہ سجھتی ہے
وہ صرف مجھ پہ جچتی ہے
ہاں، وہ بھی مجھ پہ مرتی ہے
پر کہنے سے وہ ڈرتی ہے
ثاقب وزیر
No comments:
Post a Comment