بستی میں زندگی کے نشاں تک نہیں رہے
ایسی ہوا چلی کہ مکاں تک نہیں رہے
سیلاب ساتھ لے گیا ساحل کو اس لیے
تنکوں سے مِرا ربط وہاں تک نہیں رہے
سورج ہنسا تو رات کے سائے تمام تر
یوں مٹ گئے کہ ان کے نشاں تک نہیں رہے
اپنا شعور و فکر ہے اپنی ادھیڑ بُن
ہم لوگ اب کسی پہ گِراں تک نہیں رہے
کی جن کے عز و شان کی تعریف عمر بھر
وہ چاہتے ہیں میری زباں تک نہیں رہے
بچے بھی ماں کی بات سے اب متفق نہیں
چولہا جلے تو گھر میں دھواں تک نہیں رہے
اس نے کلام ایسے ہنر سے کیا اثر
لفظوں کے تیر صرف زباں تک نہیں رہے
اسحٰق اثر
No comments:
Post a Comment