Monday, 25 October 2021

کھنکنے والی مٹی سے بنا ہوتا نہیں ہے

 کھنکنے والی مٹی سے بنا ہوتا نہیں ہے

دلِ نغمہ نما نغمہ سرا ہوتا نہیں ہے

ہم اپنی اپنی مرضی کے دنوں میں جی رہے ہیں

خیالوں کا کوئی پَل نا رسا ہوتا نہیں ہے

یہ تم جو گیان کے پَل کے لیے کم دسترس ہو

یہ سونا پانو کے آگے پڑا ہوتا نہیں ہے

ہجومِ مُردگاں سے بھی گزرنا سہل ہے کیا

بنانا پڑھتا ہے رستہ ، بنا ہوتا نہیں ہے

میں جس پَل سے کسی خواہش کا پتھر توڑتا ہوں

وہ تیشہ کب مِرے دل میں گڑا ہوتا نہیں ہے

مِری آنکھوں میں حیرت اپنی آنکھیں کھولتی ہے

نظر آتا ہے وہ جو رُونما ہوتا نہیں ہے

لہو کے پیڑ پر نیت کِھلی رہتی ہے اس کی

میاں! یہ عشق ہے اور یہ قضا ہوتا نہیں ہے

کبھی رہنے بھی دے سکتا ہے دل سب کچھ سلامت

یہ ہاتھی ہر دفعہ ضد پر اڑا ہوتا نہیں ہے 

مِری یہ آنکھ کب دیکھے ہوئے کو دیکھتی ہے

جو میں لکھتا ہوں، وہ پہلے لکھا ہوتا نہیں ہے 

وہ دشمن ہے تو پھر اس پر نظر رکھنی پڑے گی

لڑائی میں کوئی چھوٹا بڑا ہوتا نہیں ہے

میں ہر ہر لفظ میں رکھتا ہوں اپنی سانسں شہزاد

مِرا مصرع یونہی اتنا ہرا ہوتا نہیں ہے


شہزاد اظہر

No comments:

Post a Comment