Saturday 23 October 2021

چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی

 چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی

وہ ساتھ ساتھ ہے اور بے کلی نہیں جاتی

شبابِ رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر

یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی

عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات

کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی

چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا

صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں جاتی

چلو اسی سے کریں بات چارہ گر تو ہے

وہ جس سے بات کسی کی سنی نہیں جاتی

متاع درد نمو کے سفر میں ہے شامل

کلی بہار میں ویسے جلی نہیں جاتی

فشارِ وقت میں نوکِ قلم ہوئی لرزاں

لہو کے شور میں دل کی کہی نہیں جاتی

تمام شہر رعونت کی گرد میں ملفوف

اور ایک ہم ہیں کہ وارفتگی نہیں جاتی


عابد ودود

No comments:

Post a Comment