چراغ بجھ بھی چکا روشنی نہیں جاتی
وہ ساتھ ساتھ ہے اور بے کلی نہیں جاتی
شبابِ رفتہ پھر آتا نہیں جوانی پر
یہ وہ مکاں ہے کہ جس کو گلی نہیں جاتی
عجیب در بدری میں گزر رہی ہے حیات
کہ اپنے گھر میں بھی اب بے گھری نہیں جاتی
چمن کو چاروں طرف گھیر کر نہیں رکھنا
صبا گلوں کی طرف کب چھپی نہیں جاتی
چلو اسی سے کریں بات چارہ گر تو ہے
وہ جس سے بات کسی کی سنی نہیں جاتی
متاع درد نمو کے سفر میں ہے شامل
کلی بہار میں ویسے جلی نہیں جاتی
فشارِ وقت میں نوکِ قلم ہوئی لرزاں
لہو کے شور میں دل کی کہی نہیں جاتی
تمام شہر رعونت کی گرد میں ملفوف
اور ایک ہم ہیں کہ وارفتگی نہیں جاتی
عابد ودود
No comments:
Post a Comment