Monday 25 October 2021

کیا حقیقت تھی خرافات پہ غالب آئی

 کیا حقیقت تھی خرافات پہ غالب آئی

مِری اک بات جو ہر بات پہ غالب آئی

اپنے رُتبے کو جو دیکھا تو یہ معلوم ہوا

اُس کی بخشش مِری اوقات پہ غالب آئی

ضبط ٹوٹا تو چھلکتے ہوئے اشکوں کی لڑی

موسمِ ہجر میں برسات پہ غالب آئی

ایک مُفلس کی مدد کی ہے دِکھاوے کے لیے

ایک سیلفی ہے جو خیرات پہ غالب آئی

بزمِ عشرت میں جو لب کھولے تو یہ راز کُھلا

اک دُہائی کئی نغمات پہ غالب آئی

اپنے ارمانوں کا ہنس ہنس کے گَلا گھونٹ دیا

اس کی خواہش مِرے جذبات پہ غالب آئی

ہجر میں روز غزل ہوتی ہے تخلیق نئی

یہ جُدائی تو ملاقات پہ غالب آئی

ایک مظومِ زمانہ کی بغاوت صادق

کتنی فرسودہ روایات پہ غالب آئی


ولی صادق

No comments:

Post a Comment