اٹوٹ رشتے
یلغار جو اس طرح ہے جاری
تلوار جو یوں تنی ہوئی ہے
کس کس سے مقابلہ ہے میرا
کس کس سے میری ٹھنی ہوئی ہے
اپنے ہی توہم و یقیں کے
تاریک معاشرے میں میں ہوں
اپنی ہی شکست و برتری کی
فوجوں کے محاصرے میں میں ہوں
اپنے ہی ضمیر سے کشیدہ
اپنے ہی مزاج کی گدائی
اپنی ہی خرد پہ حملہ آور
اپنے ہی جنون کی رہنمائی
مجھ سے ہی مرا مطالبہ ہے
مجھ سے ہی معاملہ ہے میرا
میں اپنے ہی شست پر کھڑا ہوں
مجھ سے ہی مقابلہ ہے میرا
میں اپنی رگوں کو کاٹتا ہوں
میں اپنی رگوں کو جوڑتا ہوں
میں اپنا ہی بت تراشتا ہوں
میں اپنے ہی بت کو توڑتا ہوں
یہ ایک اٹوٹ سلسلہ ہے
انساں کا قدیم مشغلہ ہے
نوشاد نوری
No comments:
Post a Comment