Sunday, 21 August 2022

گھڑی مجبوریوں کی چل رہی ہے

 گھڑی مجبوریوں کی چل رہی ہے 

کڑی ہے رات، لیکن ڈھل رہی ہے

کچھ ایسے ڈھب سے ہم رخصت ہوئے ہیں 

جدائی ہاتھ بیٹھی مَل رہی ہے

اکیلے میں وہ جانے کیا کرے گی 

جو میرے ساتھ بھی پاگل رہی ہے

میں آدھے راستے تک آ گیا ہوں 

طوالت بے بسی سے جل رہی ہے

میں اگلے پَل تمہارے ساتھ ہوتا 

مگر یہ ریل دِھیرے چل رہی ہے 


احسان عباس

No comments:

Post a Comment