Sunday, 21 August 2022

کرنے لگے حساب غم ماہ و سال کے

 کرنے لگے حساب غم ماہ و سال کے

لمحے گزر نہ جائیں اسی میں وصال کے

رو رو کے غم میں تیرے تو ہلکان ہو گیا

کیا چاہتا ہے رکھ دوں کلیجہ نکال کے

نیچی نظر ہمیشہ نہیں رکھتے اہلِ ذوق

نکلا کرو تو ڈھنگ سے چادر سنبھال کے

آرایشیں مغالطہ بازی کا روپ ہیں

کرتے ہیں عیب پوشی بھی قالین ڈال کے

کہ کر تو پیش آتے نہیں حادثے کبھی

ہموار راستوں پہ بھی چل دیکھ بھال کے

عقل و خرد کو طاق بریں کر چکے ہو کیا

لیتے ہو فیصلے سبھی سکے اچھال کے

معمول زندگی کے ابھی تک ہیں منتشر

مارے ہوئے ہیں نذر بھی کورونا کال کے


نذر فاطمی

No comments:

Post a Comment