بلاوا
چلو اس کوہ پر اب ہم بھی چڑھ جائیں
جہاں پر جا کے پھر کوئی بھی واپس نہیں آتا
سنا ہے اک ندائے اجنبی باہوں کو پھیلائے
جو آئے اس کا استقبال کرتی ہے
اسے تاریکیوں میں لے کے آخر ڈوب جاتی ہے
یہی وہ راستہ ہے جس جگہ سایہ نہیں جاتا
جہاں پر جا کے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا
جو سچ پوچھو تو ہم تم زندگی بھر ہارتے آئے
ہمیشہ بے یقینی کے خطر سے کانپتے آئے
ہمیشہ خوف کے پیراہنوں سے اپنے پیکر ڈھانکتے آئے
ہمیشہ دوسروں کے سائے میں اک دوسرے کو چاہتے آئے
برا کیا ہے اگر اس کوہ کے دامن میں چھپ جائیں
جہاں پر جا کے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا
کہاں تک اپنے بوسیدہ بدن محفوظ رکھیں گے
کسی کے ناخنوں ہی کا مقدر جاگ لینے دو
کہاں تک سانس کی ڈوری سے رشتے جھوٹ کے باندھیں
کسی کے پنجۂ بے درد ہی سے ٹوٹ جانے دو
پھر اس کے بعد تو بس اک سکوت مستقل ہو گا
نہ کوئی سرخرو ہو گا، نہ کوئی منفعل ہو گا
زہرا نگاہ
زہرہ نگاہ
زہرا نگاہ کے اس کلام کو مرحومہ نیرہ نور نے خوب گایا ہے، نیرہ نور جن کا آج 21 اگست 2022 کو انتقال ہو گیا؛ انا للہ و انا الیہ راجعون، اس کلام کا ایک مصرع؛
جہاں پر جا کے پھر کوئی کبھی واپس نہیں آتا
زندگی سے موت اور ما بعدِ موت سبھی کو اجاگر کرتا نظر آتا ہے، رب کریم ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
No comments:
Post a Comment