وحشتِ ہجر کا انجام، اُسے لکھ دینا
اے مسیحا! مِرا پیغام، اسے لکھ دینا
میری نظروں میں یہ دنیا ہی خطاوار نہیں
وہ بھی ہے موردِ الزام، اسے لکھ دینا
وہ اگر تم سے کبھی پوچھ لے احوال مِرے
میری یہ حسرتِ ناکام، اسے لکھ دینا
تیرے ہمراہ کبھی میں نے گزاری تھی جو
اپنی قسمت کی حسیں شام، اسے لکھ دینا
ہو گئی ہیں مِری متروک اڑانیں ساری
میں تڑپتی ہوں تہِ دام، اسے لکھ دینا
اس کو جانا ہے جہاں جائے رہوں گی اس کی
عمر بھر بندیٔ بے دام، اسے لکھ دینا
یوں وفاؤں کا صلہ مجھ کو ملا ہے ریشم
ہو گئی شہر میں گمنام، اسے لکھ دینا
ریشما ریشم زیدی
No comments:
Post a Comment