Sunday, 21 August 2022

تری نگاہ جو چہرہ شناس ہو جائے

 تِری نگاہ جو چہرہ شناس ہو جائے

غمِ حیات کی تلخی مٹھاس ہو جائے

ہر ایک صبح تجھے ڈھونڈنے نکلتا ہوں

ہر ایک شام طبیعت اداس ہو جائے

میں اپنے ہونے کا احساس چاہتا ہوں اب

تِری نظر، مِرے تن کا لباس ہو جائے

جگی ہے دل میں تمنا کوئی مجھے چاہے

یہ دشت بھی کسی دریا کی پیاس ہو جائے

کسی کی عمرِ رواں پا بجولاں ہوتی ہے

کسی کی راہ کا پتھر کپاس ہو جائے

میں اپنے سائے سے بھی بچ بچا کے چلتا ہوں

خدایا! یوں نہ کوئی بدحواس ہو جائے

کِھلے نہ شاخِ شجر پر کوئی نئی اُمید

بس ایک سایہ ملے جو کہ راس ہو جائے


مزمل عباس شجر

No comments:

Post a Comment