Saturday, 20 August 2022

حالات کے ماروں سے یوں موج بلا الجھے

 حالات کے ماروں سے یوں موجِ بلا اُلجھے

جیسے کہ چراغوں سے رہ رہ کے ہوا الجھے

کچھ نظمِ چمن بدلے، ہنگامہ بھی ہو برپا

گر شعلہ بیانوں سے بے بس کی صدا الجھے

خوشبو ہو فضاؤں میں خُوشرنگ نظارے ہوں

دامانِ گُلِ تر سے جب بادِ صبا الجھے

ہر شام اٹھاتی ہے سر تیرہ شبی اپنا

ہر رات اندھیرے سے شمعوں کی ضیا الجھے

یوں حرف نہ آ جائے گُلشن میں بہاروں پر

اب اور نہ پُھولوں سے کانٹوں کی ردا الجھے

کیا ہو گا ذرا سوچو ریشم! سرِ محفل جب؟

خوددار طبیعت سے گیسُوئے انا الجھے


ریشما ریشم زیدی

No comments:

Post a Comment