ایک آوارہ حادثہ
اپنی پہچان سے محروم
شہر میں گھوم رہا ہے
پاگل حادثہ
کرب کا ڈھول گلے میں ڈالے
آہ و بکا کو پیٹ رہا ہے
بدحال حادثہ
اپنے ہونے سے محروم
شہر کے رستوں کو
کبھی پوت رہا ہے کبھی لیپ رہا ہے
کون ہے اس کا مضروب
کہاں ہو گا اس کا ٹھکانا
چڑیا کا گھونسلہ؟
نہیں، انڈے ٹوٹ جائیں گے
کسی محبوب کی آنکھیں؟
نہیں، سپنے ٹوٹ جائیں گے
چیختا چنگھاڑتا المیہ
بلکتا سسکتا ضمیر
پگھلتی آنکھیں
یا بے جان ہوتا وجود
حادثہ بھول رہا ہے
سوچنا بھی ایک حادثہ ہے
خود کو نوچنے لگا
حادثہ سوچنے لگا
عثمان غازی
No comments:
Post a Comment