اس وجہ سے پرس میں تنویر ہے
پرس میں رکھی تِری تصویر ہے
ہم ہیں دیوانے ہمیں مت پوچھیے
آج کیا اتوار ہے؟ یا پیر ہے
سارے ہنستے ہیں مِری تقدیر پر
کیا مِری تقدیر کی تقدیر ہے
خواب میں اک ساتھ کل تھے میں اور آپ
پر اُلٹ اس خواب کی تعبیر ہے
ریل کی مانند ہے یہ زندگی
خودکشی اس ریل کی زنجیر ہے
یوں جُڑا ہے قیس سے صحرا کا ذکر
جیسے صحرا قیس کی جاگیر ہے
شکیل ساحر
No comments:
Post a Comment