یہ بے خیالی کا منظر دکھائی دیتا ہے
کہ بولتا نہیں کچھ پر سنائی دیتا ہے
وہ تیرگی ہے نہ کچھ بھی دکھائی دیتا ہے
بس ایک ماں کا ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے
یہ شہر خواب میں ریزہ ہوئے سبھی سپنے
نہ واپسی کا وہ رستا دکھائی دیتا ہے
یہ شب تو کہنے کو تاریک ہے بہت لیکن
امید کا اک اجالا دکھائی دیتا ہے
نکل پڑے ہیں تو کیا پیاس اور کیسی دھوپ
بس اپنے گاؤں کا منظر دکھائی دیتا ہے
وفا اصول محبت سکون اعتبار
غلط ہر ایک کا معانی دکھائی دیتا ہے
غازی معین
No comments:
Post a Comment