ہے تیری توجہ کا جویا جو مست جہاں ہے اے ساقی
میں بھی نہ رہوں محرومِ کرم محفل یہ گراں ہے اے ساقی
ہاں تیری نظر کچھ کہتی ہے، کیا کہتی ہے، کیا بتلاؤں؟
کچھ اس سے عیاں ہے اے ساقی! کچھ اس میں نہاں ہے اے ساقی
کچھ اپنے کرم کی لاج ہی رکھ، اس بزم میں اک مے کش
پیمانہ بہ کف، پیمانہ بہ دل، پیمانہ بہ جاں ہے اے ساقی
ہے چشمِ حیا اک پیمانہ، دُزدیدہ نگاہی کے صدقے
یہ ایک نظر مستوں کے لیے سرمایۂ جاں ہے ساقی
محفل میں چھلکتے جاموں کے طالب تو ہزاروں دیکھے ہیں
جو تُرت پیے اور کچھ نہ کہے وہ مست کہاں ہے اے ساقی
بیٹھا میانِ لالہ و گل، بربط بہ کنار، و جام بہ کف
اور سوچ رہا ہوں کیا ہو گا، عالم گزراں ہے اے ساقی
خالد نے سنا ہے کھولیں گے رازِ مئے و ساغر عالم پر
یہ تیری نظر کے پیمانے صاحب نظراں ہے اے ساقی
خالد مینائی
No comments:
Post a Comment