Saturday, 20 August 2022

اک نام اب بھی دل پہ رقم ہے نہ جانے کیوں

 اک نام اب بھی دل پہ رقم ہے نہ جانے کیوں

سر اس کے در پہ آج بھی خم ہے نہ جانے کیوں

فہرست سے تو کاٹ دیا وقت نے وہ نام

اور آنکھ اُس کی یاد میں نم ہے نہ جانے کیوں

اب صورتیں بھی وقت کے سائے کی زد میں ہیں

اور جام جم میں عکس بھی کم ہے نہ جانے کیوں

وہ جس کا ہاتھ ہاتھ میں اپنے نہیں رہا

دل تک دراز اُس کا قدم ہے نہ جانے کیوں

آنکھوں میں ایک قد قیامت ہے آج بھی

عدسے میں اب بھی ایک صنم ہے نہ جانے کیوں

صفدر! حریم جاں میں جو زندہ ہے آج بھی

پتھر پہ اُس کا نام رقم ہے نہ جانے کیوں​


صفدر جعفری

No comments:

Post a Comment