Saturday, 20 August 2022

شکوے گلے وہ سارے مٹا کر غزل کہو

أفکار پریشاں


 شکوے گلے وہ سارے مٹا کر غزل کہو

یعنی کہ دل سے دل کو ملا کر غزل کہو

آسودگی نے ہم کو سنائی ہیں لوریاں

ملت کی حاجتوں کو جگا کر غزل کہو

کب تک قلم دوات سے لکھتے رہیں غزل

اب تو لہو میں اشک ملا کر غزل کہو

دنیا میں ہر کسی کو تبسم ہی چاہیے

درد و الم کو دل میں چھپا کر غزل کہو

کر دو شبِ وصال تکلف کو بر طرف

آنکھوں میں اس کے آنکھ ملا کر غزل کہو

خوابوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں رو کر بہت لکھا

اب زندگی کی دھوپ میں آ کر غزل کہو

پیوندِ شعر سے تو نہیں کوئی فائدہ

راہی جگر کے چاک سِلا کر غزل کہو


اسامہ ابن راہی

No comments:

Post a Comment