أفکار پریشاں
شکوے گلے وہ سارے مٹا کر غزل کہو
یعنی کہ دل سے دل کو ملا کر غزل کہو
آسودگی نے ہم کو سنائی ہیں لوریاں
ملت کی حاجتوں کو جگا کر غزل کہو
کب تک قلم دوات سے لکھتے رہیں غزل
اب تو لہو میں اشک ملا کر غزل کہو
دنیا میں ہر کسی کو تبسم ہی چاہیے
درد و الم کو دل میں چھپا کر غزل کہو
کر دو شبِ وصال تکلف کو بر طرف
آنکھوں میں اس کے آنکھ ملا کر غزل کہو
خوابوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں رو کر بہت لکھا
اب زندگی کی دھوپ میں آ کر غزل کہو
پیوندِ شعر سے تو نہیں کوئی فائدہ
راہی جگر کے چاک سِلا کر غزل کہو
اسامہ ابن راہی
No comments:
Post a Comment