Saturday, 20 August 2022

بیتاب کر رہی ہے تمنائے کربلا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ بر شہیدِ کربلا


 بیتاب کر رہی ہے تمنائے کربلا

یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

ہے مقتلِ حسینؑ میں اب تک وہی بہار

ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات

جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں، اسے

سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

مطلب فُرات سے ہے نہ آبِ حیات سے

ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز

اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا


محمد علی جوہر

No comments:

Post a Comment