Thursday, 10 November 2022

کسی جنگل میں جا کر قافلہ گم ہو گیا ہے

 کسی  جنگل میں جا کر قافلہ گم ہو گیا ہے

یہاں سے واپسی کا راستہ گم ہو گیا ہے

وہ جس رسی کو ہم نے تھامنا تھا، کاٹ ڈالا

عقیدوں کے تصادم میں خدا گم ہو گیا ہے

اسے ملنے کی خاطر جس سے تس سے مل رہے ہیں

جسے ملنا تھا اس کا ہی پتہ گم ہو گیا ہے

تمہاری کیا، کسی کی یاد اب آتی نہیں ہے

مجھے لگتا ہے میرا حافظہ گم ہو گیا ہے

بہت دن بعد کچھ سننے کو جب راضی ہوا وہ

لبوں تک آتے آتے مدعا گم ہو گیا ہے

ہمیں آسائشیں حاصل ہیں پہلے سے زیادہ

مگر وہ لمحۂ راحت فزا گم ہو گیا ہے

طلب اک دوسرے سے مل رہے ہیں لوگ رسماً

دلوں کے بیچ جو تھا رابطہ گم ہو گیا ہے


خورشید طلب

No comments:

Post a Comment