کسی جنگل میں جا کر قافلہ گم ہو گیا ہے
یہاں سے واپسی کا راستہ گم ہو گیا ہے
وہ جس رسی کو ہم نے تھامنا تھا، کاٹ ڈالا
عقیدوں کے تصادم میں خدا گم ہو گیا ہے
اسے ملنے کی خاطر جس سے تس سے مل رہے ہیں
جسے ملنا تھا اس کا ہی پتہ گم ہو گیا ہے
تمہاری کیا، کسی کی یاد اب آتی نہیں ہے
مجھے لگتا ہے میرا حافظہ گم ہو گیا ہے
بہت دن بعد کچھ سننے کو جب راضی ہوا وہ
لبوں تک آتے آتے مدعا گم ہو گیا ہے
ہمیں آسائشیں حاصل ہیں پہلے سے زیادہ
مگر وہ لمحۂ راحت فزا گم ہو گیا ہے
طلب اک دوسرے سے مل رہے ہیں لوگ رسماً
دلوں کے بیچ جو تھا رابطہ گم ہو گیا ہے
خورشید طلب
No comments:
Post a Comment