نکال اب کوئی سورج دکان سے اپنی
پھسل گیا ہے تِرا کُن، زبان سے اپنی
خزاں ہے مدِ مقابل سو جنگ یوں کیجے
کہ اب تو پھول ہی نکلیں میان سے اپنی
ندی کے سارے پرندوں پہ خوف طاری ہوا
یہ کس نے تیر نکالا کمان سے اپنی
مِرے ہی شعر کا مصرع نہیں کھلا مجھ پر
پھر اُس نے آنکھ نکالی تھی دھیان سے اپنی
وہ یاد، جس کو کبھی کینوس میں قید کیا
نکل گئی ہے وہ حدِ گمان سے اپنی
یہیں کہیں پہ ہوا تھا وہ بانکپن مغموم
کوئی عزیز تھا سید کو جان سے اپنی
داؤد سید
No comments:
Post a Comment