دیارِ بے خودی ہے، اس سے آگے
ابھی آوارگی ہے، اس سے آگے
لبوں میں آنسوؤں کو جذب کر لو
بلا کی تشنگی ہے، اس سے آگے
شعور و لاشعوری بھی بجا ہے
مقامِ آگہی ہے، اس سے آگے
لبِ ساحل پہ ہیں موجوں کے نوحے
غضب کی خامشی ہے، اس سے آگے
سبو میں جب کوئی آنکھیں ملا دے
سرورِ مے کشی ہے، اس سے آگے
بجھا ہوں شب کے بہکاوے میں اختر
سنا تھا روشنی ہے، اس سے آگے
شیراز اختر
No comments:
Post a Comment