زمانے کو زمانے سے ڈرایا جا رہا ہے
کوئی تو بھید ہے جس کو چھپایا جا رہا ہے
کسی کی زندگی تھی سونپ دی تم نے کسی کو
کسی کا غم کسی سے اب اٹھایا جا رہا ہے
لبوں کو سی کے بیٹھو وصل کی باتیں نہ چھیڑو
کسی کی ہجر کا ماتم منایا جا رہا ہے
ہمارے بخت میں کیا خاک بھی باقی نہیں ہے؟
کہ اب صحرا پہ بھی پہرا بٹھایا جا رہا ہے
تماری بزم میں مٹی سے پتھر بن نہ جائیں
ہمارا ضبط کب سے آزمایا جا رہا ہے
کئی پارس، کئی کندن، کئی گوہر بنیں گے
تیرے مکتب میں تیرا فن سکھایا جا رہا ہے
کوئی بھی خواب آنکھوں نے نہیں دیکھا ابھی تو
سحر سے پہلے کیوں ہم کو جگایا جا رہا ہے
شجاعت سحر جمالی
No comments:
Post a Comment