Tuesday, 1 November 2022

زمانے کو زمانے سے ڈرایا جا رہا ہے

زمانے کو زمانے سے ڈرایا جا رہا ہے

کوئی تو بھید ہے جس کو چھپایا جا رہا ہے

کسی کی زندگی تھی سونپ دی تم نے کسی کو

کسی کا غم کسی سے اب اٹھایا جا رہا ہے

لبوں کو سی کے بیٹھو وصل کی باتیں نہ چھیڑو

کسی کی ہجر کا ماتم منایا جا رہا ہے

ہمارے بخت میں کیا خاک بھی باقی نہیں ہے؟

کہ اب صحرا پہ بھی پہرا بٹھایا جا رہا ہے

تماری بزم میں مٹی سے پتھر بن نہ جائیں

ہمارا ضبط کب سے آزمایا جا رہا ہے

کئی پارس، کئی کندن، کئی گوہر بنیں گے

تیرے مکتب میں تیرا فن سکھایا جا رہا ہے

کوئی بھی خواب آنکھوں نے نہیں دیکھا ابھی تو

سحر سے پہلے کیوں ہم کو جگایا جا رہا ہے


شجاعت سحر جمالی

No comments:

Post a Comment