Tuesday, 2 April 2024

پردہ داروں کی محفل کے وسط میں عریاں سناٹا

 پردہ داروں کی محفل کے وسط میں عریاں سناٹا

میلوں میل عزاداروں کے بیچ میں رقصاں سناٹا

جب کانوں کو چیر رہے ہوں طعنوں تشنوں کے نشتر

ایسے لمحوں میں ہوتا ہے درد کا درماں سناٹا

راکھ ہوئیں وہ شامیں جن میں لمس کی تڑپن باقی تھی

اب تو بس اک مے کی حاجت، باقی ارماں سناٹا

میخانے میں ہُو کا عالم مِینا مستی بھول گئی

آؤ سارے سینہ پیٹو، وائے رنداں سناٹا

دو راتوں میں کیسے برسوں بیت گئے معلوم نہیں

میں ہی چپکے سے نہیں روتا، حلقۂ یاراں سناٹا

زاہد زہد کی مستی میں چیخا تو اک درویش ہنسا

حق کا عرفاں سناٹا ہے سچا وجداں سناٹا

ناچیں گا لیں شور مچا لیں غاصب، رسی ڈھیلی ہے

دیکھ تماشہ ثقفی کیونکہ، عدلِ یزداں سناٹا


اقتدار اعوان

No comments:

Post a Comment