پردہ داروں کی محفل کے وسط میں عریاں سناٹا
میلوں میل عزاداروں کے بیچ میں رقصاں سناٹا
جب کانوں کو چیر رہے ہوں طعنوں تشنوں کے نشتر
ایسے لمحوں میں ہوتا ہے درد کا درماں سناٹا
راکھ ہوئیں وہ شامیں جن میں لمس کی تڑپن باقی تھی
اب تو بس اک مے کی حاجت، باقی ارماں سناٹا
میخانے میں ہُو کا عالم مِینا مستی بھول گئی
آؤ سارے سینہ پیٹو، وائے رنداں سناٹا
دو راتوں میں کیسے برسوں بیت گئے معلوم نہیں
میں ہی چپکے سے نہیں روتا، حلقۂ یاراں سناٹا
زاہد زہد کی مستی میں چیخا تو اک درویش ہنسا
حق کا عرفاں سناٹا ہے سچا وجداں سناٹا
ناچیں گا لیں شور مچا لیں غاصب، رسی ڈھیلی ہے
دیکھ تماشہ ثقفی کیونکہ، عدلِ یزداں سناٹا
اقتدار اعوان
No comments:
Post a Comment