Thursday, 4 April 2024

مے گساروں کا کوئی بھروسہ نہیں

 چار دن ترک مے پر یہ قائم رہیں مے گساروں کا کوئی بھروسہ نہیں

کب اُٹھا دیں قدم مے کدے کی طرف غم کے ماروں کا کوئی بھروسہ نہیں

مہکی مہکی فضا، بہکی بہکی نظر، لڑکھڑاتی زباں، ڈگمگاتے قدم

جا رہے ہیں کدھر اور پہنچیں کہاں، بادہ خواروں کا کوئی بھروسہ نہیں

دل میں بے تابیوں کا سمندر لیے، ڈھونڈنے تو چلے ہیں سکوں کی جگہ

شام ہو مے کدے میں کہ مسجد میں ہو، بے قراروں کا کوئی بھروسہ نہیں

کیوں نہ کشتی کو منجدھار میں لے چلوں، آبرُو ہے تلاطم کی آغوش میں

ڈُوب جاتی ہیں ساحل پہ بھی کشتیاں، ان کناروں کا کوئی بھروسہ نہیں

جب بھی دل کو نظر کے سہارے ملے، بڑھ گئیں اور بھی دل کی وِیرانیاں

ان سہاروں پہ ہم نے بھروسہ کیا، جن سہاروں کا کوئی بھروسہ نہیں

رازِ دل تم کسی سے نہ کہنا کبھی، ورنہ آئے گا وہ دن کہ پچھتاؤ گے

یہ چڑھا دیں گے رُسوائی کی دار پر، رازداروں کا کوئی بھروسہ نہیں

مُسکرائے تو محفل میں جان آ گئی، ہو گئے چُپ تو افسُردگی چھا گئی

یہ خُوشی بانٹ دیں چاہے غم بانٹ دیں، ماہ پاروں کا کوئی بھروسہ نہیں

یہ جو چاہیں بنا دیں ذرا دیر میں، یہ بنا کر مٹا دیں ذرا دیر میں

دل لگانا نہ کامل خُدا کے لیے، ان نگاروں کا کوئی بھروسہ نہیں


کامل چاندپوری

No comments:

Post a Comment