Thursday, 4 April 2024

کب تمنا کوئی ہے جینے میں

 کب تمنا کوئی ہے جینے میں

سانس بس چل رہی ہے سینے میں

کوہ کن ہو تو ڈھونڈ لے دل میں

کیا چھپا ہے مرے دفینے میں

کچھ الٹ جائے سانس کی ترتیب

ایک وحشت ہے اس قرینے میں

اس قدر صاف دل سے کیا مطلب

ٹھیس اک چاہیے نگینے میں

بات دل کی نہ لب پہ آ جائے

عذر کیا اور مجھ کو پینے میں

شہر میں حبس اس قدر ہے کہ بس

سانس رکتی ہے میرے سینے میں

دل میں کچھ درد، کچھ حسیں یادیں

بس یہی دفن ہے خزینے میں

اس برس بھی گزر گیا ساون

چاک دامن کے پھر سے سینے میں

لوٹ آتی ہے اس کی یاد شکیل

بھیگتے جنوری مہینے میں


شکیل خورشید

No comments:

Post a Comment