کب تمنا کوئی ہے جینے میں
سانس بس چل رہی ہے سینے میں
کوہ کن ہو تو ڈھونڈ لے دل میں
کیا چھپا ہے مرے دفینے میں
کچھ الٹ جائے سانس کی ترتیب
ایک وحشت ہے اس قرینے میں
اس قدر صاف دل سے کیا مطلب
ٹھیس اک چاہیے نگینے میں
بات دل کی نہ لب پہ آ جائے
عذر کیا اور مجھ کو پینے میں
شہر میں حبس اس قدر ہے کہ بس
سانس رکتی ہے میرے سینے میں
دل میں کچھ درد، کچھ حسیں یادیں
بس یہی دفن ہے خزینے میں
اس برس بھی گزر گیا ساون
چاک دامن کے پھر سے سینے میں
لوٹ آتی ہے اس کی یاد شکیل
بھیگتے جنوری مہینے میں
شکیل خورشید
No comments:
Post a Comment