لائی اک حلقۂ زنجیر نشانی میں ہوا
جانے کیا کہتی ہے پیغام زبانی میں ہوا
منزلیں راہ میں آتی ہیں، گُزر جاتی ہیں
راستہ بھُول گئی اپنی روانی میں ہوا
کبھی بغداد کی گلیوں سے غزلخواں گُزری
کبھی مصروف ہوئی مرثیہ خوانی میں ہوا
اپنی مُٹھی میں دبائے کئی جگنو کئی پھُول
سو گئی رات گئے رات کی رانی میں ہوا
ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں ہونے دیتی
شمع کے ساتھ رہی نُور فشانی میں ہوا
شمع ظفر مہدی
No comments:
Post a Comment