میرے خوابوں کی تم حویلی ہو
تم میرا عشق ہو، سہیلی ہو
میں جماؤں ہتھیلی پر سرسوں
ہاتھ میں گر تِری ہتھیلی ہو
میں بنفشہ کا پُھول ہوں اور تم
میری محبوبہ ہو، چمیلی ہو
جیسے موسم کا سوچتا ہوں میں
ویسے موسم میں تم اکیلی ہو
تا کہ تم کو نظر نہ لگ جائے
میں نے رکھی ہوئی پہیلی ہو
تم مِرے حاسدین سے بچنا
تم مِرے پیار میں نویلی ہو
کپ میں چائے پہ دل تو بننا ہے
تم نے جب کیتلی انڈیلی ہو
تم مِری سانس کی ضمانت ہو
تم مِری دھڑکنوں کی بیلی ہو
میں بھی جہلم کنارے تنہا ہوں
تم بھی ڈل جھیل پر اکیلی ہو
سید جواد حاشر
No comments:
Post a Comment