یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے
تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے
دیوار و در کے ساتھ دریچے بھی ہیں، مگر
ہر شخص تیرے شہر کا بے گھر لگے مجھے
پھینکے جو تُو نے پُھول کسی کے خیال میں
میرے ندیم! تیر وہ اکثر لگے مجھے
منزل کے پاس لُٹتے ہوئے دیکھے کارواں
اب ذکرِ وصل سے بھی یہاں ڈر لگے مجھے
یہ معجزہ جنوں کا ہے یا عشق کا کمال؟
دیوار اپنی راہ کی بھی در لگے مجھے
اُتریں صحیفے پیار کے دل پہ تِرے قمر
تُو کیوں نہ چاہتوں کا پیمبر لگے مجھے
سید ارشاد قمر
No comments:
Post a Comment