میں جہاں بھی ہوں وہیں انجمن آرائی ہے
کہ مِرے ساتھ مِرا عالمِ تنہائی ہے
حسرتِ آہ بھی توہینِ شکیبائی ہے
کیا مِرے درد کا مفہوم ہی رُسوائی ہے
نہ تجلّی نہ کوئی انجمن آرائی ہے
زندگی ایک مسلسل شبِ تنہائی ہے
موت ہے قیمتِ ہستی کوئی انعام نہیں
جان دی ہے تو حیاتِ ابدی پائی ہے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں یوں قافلے والے مجھ کو
جیسے منزل مِرے ہم راہ چلی آئی ہے
سینۂ گُل میں جو طوفاں ہے ہمیں کیا معلوم
ہم تو اتنا ہی سمجھتے ہیں بہار آئی ہے
رازِ نیرنگِ چمن کوئی نہ سمجھا شاہد
موت پھولوں کی بہ عنوانِ بہار آئی ہے
شاہد صدیقی
No comments:
Post a Comment