Wednesday 5 June 2024

انتشار گلشن کو ڈالیاں سمجھتی ہیں

 اِنتشارِ گُلشن کو ڈالیاں سمجھتی ہیں

گُل پہ کیا گُزرتی ہے تِتلیاں سمجھتی ہیں

کیوں ہُوا میں دیوانہ کیا کسی کو سمجھاؤں

راز میرے سینے کے بیڑیاں سمجھتی ہیں

لفظ کھو گئے سارے ذہن کے درِیچوں میں

خط میں کیا لکھیں اس کو اُنگلیاں سمجھتی ہیں

انتہائے غم میں بھی آنکھ سے نہیں ٹپکے

آنسوؤں کی مجبوری، سِسکیاں سمجھتی ہیں

اک صبا کے جھونکے نے زُلف رُخ پہ بِکھرا دی

حُسن کی نزاکت کو چُوڑیاں سمجھتی ہیں

خُود کو بُھول کر بھی ہم تم کو یاد کرتے ہیں

تم کہاں یہ سمجھو گے ہِچکیاں سمجھتی ہیں

کب تلک مسعود! آخر دل کو ہم دِلاسہ دیں

لذتِ غمِ ہجراں دُوریاں سمجھتی ہیں


مسعود ظہیر نقوی

No comments:

Post a Comment