Wednesday 5 June 2024

دکھوں کا اک پہاڑ بھی دل میں سمویا ہے

 دکھوں کا اک پہاڑ بھی دل میں سمویا ہے

پھر بھی ہمارے جینے کو اِک سانس گویا ہے

کُنبہ کے سر پرستوں کو جنگیں عزیز ہوں 

ہم نے تمہاری جنگوں میں کِتنوں کو کھویا ہے

قائم رہے ہیں آپ اناؤں پہ اپنی بس

دن رات ہم نے اشکوں سے دامن بھگویا ہے

مٹی کے جا کے ڈھیر میں اسلاف سو گئے

شاید تبھی ہمارا مقدر بھی سویا ہے

خوشیوں کے آئے کتنے مواقع نہیں ملے

وقتِ وصال ہر کوئی گل لگ کے رویا ہے

اک روز اپنے باغ کا پھل کھائے گا ضرور

جس نے یہاں پہ جو بھی کہِیں بیج بویا ہے

قیصر کا دل اداس تھا اِس چاند رات پر

قیصر نے اپنے غم کو غزل میں پرویا ہے


قیصر عمران سیالوی

No comments:

Post a Comment