Wednesday 12 June 2024

دیوتاؤں کو پجاری کیا سزائیں دے گئے

 اپنے ناخن اپنے چہرے پر خراشیں دے گئے

گھر کے دروازے پہ کچھ بھوکے صدائیں دے گئے

جاگتے لوگوں نے شب ماروں کی جب چلنے نہ دی

دن چڑھے وہ روشنی کو بد دعائیں دے گئے

خود ہی اپنے ہاتھ کاٹے اور آنکھیں پھوڑ لیں

دیوتاؤں کو پجاری کیا سزائیں دے گئے

ایک اپنی ذات کے نقطے کو مرکز مان کر

حوصلوں کے زاویے بے حد خلائیں دے گئے

تیز طوفانوں نے ساحل روند ڈالے تھے مگر

جب وہ ٹکرائے پہاڑوں سے گھٹائیں دے گئے


علی اکبر عباس

No comments:

Post a Comment