Monday 3 June 2024

حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے

 حقیقت زیست کی سمجھا نہیں ہے

وہ اپنے دشت سے گُزرا نہیں ہے

اندھیرے رقص کرتے ہیں مُسلسل

کہ سُورج رات کو آتا نہیں ہے

کرے گا خُود کشی ہی ایک دن وہ

سکوں جس ذہن کو ملتا نہیں ہے

اُٹھائے گُھومتی ہے زرد پتے

ہوا سے اور کچھ چلتا نہیں ہے

نہ ڈُوبو شمع میں پروانو! تم، یہ

دہکتی آگ ہے،۔ دریا نہیں ہے

اُمنگوں کی کئی ندیاں ہیں اس میں

سمندر ہے یہ دل، صحرا نہیں ہے

یہ جو آتش فشاں ہے مجھ میں سیما

دہکتا رہتا ہے،۔ بُجھتا نہیں ہے


سیما شرما میرٹھی

No comments:

Post a Comment